Saturday 16 September 2017

جب امیدوں کا فرشتہ امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی کے نام سے پہنچا

 جب امیدوں کا فرشتہ مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی کے نام سے پہنچا تو اس نے ریاست کی زندگی میں ایک تبدیلی برپا کی، ایک تاریخی حقیقت جسے عوام کو ضرور معلوم ہونا چاہیے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
از راجہ حبیب جالب
(B.A.LL.B (Pb)
D.LL.H(chi) D.M.A.L(Gold-medalist)
(KPSIچیرمین جموں و کشمیر ہیومین رائٹس کونسل انٹرنیشنل ونگ (سیکرٹری جنرل ۔
.

امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ گڑھی سے متعلق لکھے گئے میرے پہلے کالم کو کافی سہرایا گیا اور پونچھ سے تعلق رکھنے والے گئی لوگوں نے مجھے مزید معلومات بھی بھیجی اور درخواست کی کہ اس دورکی صورتحال کے متعلق مزید تفصیلات بھی مہیا کروں۔ ہم جب بھی سیاسی شخصیات کے متعلق بات کرتے ہیں تو ہم مکمل طور پر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اس وقت غالب حالات کیا تھے۔ جب مولانا صاحب (تعلیم مکمل کرنے کے بعد) واپس ( 1920 کے قریب) گھر پہنچے ، اسوقت کوئی پاکستان نہیں تھا، برٹش حکمرانی کا دور تھا اور کشمیر (ریاست جموں کشمیر) میں ڈوگرہ راج تھا وہ ہر وہ طریقہ (گر)استعمال کیا کرتا تھا جس سے کشمیری مسلمانوں کو غریب اور خستہ حال رکھا جا سکے،لیکن کشمیر(ریاست جموں کشمیر) کے دوسرے خطوں کے مقابل پونچھ کے مسلمانوں کے حالت زیادہ مخدوش تھی جہاں(ریاست پونچھ) ڈوگرہ ٹھاکر فیملی کی حکومت تھی، یہ ایک جزوی آزاد ریاست تھی جس تک رسائی بھی آسان نہ تھی یہاں صرف مہاراجہ کشمیر جو مکمل طور پر آزاد تھا ، کا قانونی لحاظ سے اختیار صرف مہاراجہ آف پونچھ کے دفاع کی حد تک ہی سمجھا جاتا تھا۔اس بات کا تذکرہ حیران کن ہے کہ اسوقت کوئی سڑکیں نہ تھیں، چند سکول تھے، کوئی میڈیکل سہولیات نہ تھی مشکل سے کوئی تجارتی راستئہ تھا ، لوگ انڈیا اور کشمیر کے دوسرے علاقوں تک جانے کے لئے کوہالہ تک جایا کرتے تھے، زیادہ تر لوگ پیدل ہی سفر کرتے تھے اورجو لوگ کچھ دولت رکھتے تھے گھوڑے استعمال کرتے تھے اور ان افراد کو مراعات یافتہ تصور کیا جاتا تھا۔
۔
ان کے پاس صرف چند پرائمری سکول ہی تھے اور پڑھنے کے لئے کتابوں کا حصول تقریبا نا ممکن تھا  کتابیں مہیا نہیں کی جاتیں تھیں اورعام لوگ اپنے بچوں کے لئے کتابیں خرید نہیں سکتے تھے۔صرف ایک ہائی سکول پونچھ شہر میں تھا۔ راجہ آف پونچھ کو صرف اپنی آمدنی کی ضرورت کا خیال ہوتا تھا ، اس نے صرف ٹیکس لیتا ہوتا تھا اپنی دولت بنانے کے لئے اور یہان کے مسلمانوں کو غریب رکھا ہوا تھا، صرف وہ افراد دولتمند تھے جو یا تو کشمیری پنڈت تھےیا ڈوگرہ راجپوت۔ انتظامیہ کی سینئر نوکریوں جیسے سیکورٹی اورمحصولات اور عدالت میں فیملی ممبر کو دی گئی تھیں، صرف چند سینئرز پوسٹوں پر مسلمانوں کو بھی یہ باور کروانے کے لئے تعینات کیا ہوا تھا کہ مہاراجہ سب سے برابری کی بنیادی پرمعاملہ کرتا ہے لیکن  حقیقی طور پر جو لوگ فائدہ اٹھا رہے تھی وہ صرف ہندو ہی تھے۔راجہ صرف ایک وزیر کے ساتھ حکومت کر رہا تھا جو ریاست کی سکیورٹی کی نگرانی کرتا تھا، عدالت کا ایک چیف جج ہوتا تھا،جو ڈسٹرکٹ جج کی طرح کا ہوتا تھا اور عموما اسے چیف جج کہا جاتا تھا اسکا فیصلہ حتمی ہوتا تھا کہیں کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی تھی سوائے مہاراجہ کے پاس جسکا فیصلہ فائنل ہوتا تھا۔محمکہ تعلیم کی نگرانی محمکہ تعلیم کے چیف آفیسر کرتا تھا، چیف فارسٹ آفیسر ہوتا تھا، چیف ریونیو آفیسر ہوتا تھا اور ان سب کے اوپر وزیر ہوتا تھا جو براہ راست مہاراجہ کو جوابدہ ہوتا تھا۔ اسطرح کبھی اگر کوئی چھوٹا موٹا کیس بھی ہوتا تو لوگوں کو پونچھ کا سفر کرنا پڑتاتھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ موسم سرما میں بھی لوگوں کے پاس سفر کرنا پڑتا اور انکے پاس پہننے کے لئے جوتے نہیں ہوتے تھے اور لوگ پول( گھاس سے بنایا گیا جوتا) بطور جوتا پہننے کے لئے تیار کیا کرتے تھے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے کیس نئی نسل تک چلتے تھے اور ہندووں وکیل اپنے پیسے بناتے رہتے ، ایسے ہی ایک کیس میرے پڑدادا کا تھا جس نے بیس سال تک لئے ،کیس جیتنے کے بعد جب انھوں نے دیکھا کہ ان کا پڑوسی جووقت ضائع کرنے کے ساتھ کافی پیسہ بھی خرچ کر چکا تھا اور غریب بھی تھا تو تب انھوں نے جج سے کہا کہ یہ زمین اسے دے دیں یہ مجھ سے زیادہ قابل رحم ہے۔ بعد اذاں کیس جیتنے کے بعد زمین واپس دینا ہماری فیملی میں ایک مذاق بن گیا تھا۔ یہ چیزیں واضح کرتیں ہیں کہ کیسے مہاراجہ لوگوں کو کنڑول کیا کرتا تھا، اسکے علاوہ مہاراجہ نے ہر گاؤن کا ایک چیف جسے نمبردار کہا جاتا تھا رکھا ہوتا تھا ، ایک سیکورٹی چوکیدار رکھا ہوتا تھا جو تنخواہ لوگوں سے اکھٹے کئے گئے محصولات سے ہی لیتا تھا ۔زمین پر ٹیکس (مالیا) ایک اور ظالمانہ ٹیکس تھا جو اسوقت گاؤں کے لوگوں سے لیا جاتا تھا، انھیں اپنی زمین بھی اس ٹیکس کی ادائیگی کے لئے دینے پڑتی تھی، حتی کہ کھڑکیوں اور دروازوں پر بھی ٹیکس تھے۔ اسوقت کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس صورتحال کے حوالے سے آواز اٹھا سکے یہاں تک کے سرکاری آفیسران اور پڑھے لکھے افراد بھی اسی صورت حال میں جیتا ہوئے دیکھ رہے تھے۔
۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی صرف زیادہ مفاد کے حوالے سے مہاراجہ کو قائل کرنے کی طرف توجہ کیے ہوتے تھے کوئی بھی مہاراجہ کے خلاف سٹینڈ لینے کی ہمت نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ مہاراجہ کے ری ایکشن سے واقف تھے، لہذا اس حوالے سے ان کو مہاراجہ سے کچھ کہنا محض ایک شریفانہ یاد دہانی کے طور پر ہی ہوتا تھا کہ ہم بھی آپ کا سبجیکٹ ہیں۔لیکن پونچھ میں ایک جری اور خدا خوفی رکھنی والے شخصیت آئی جس نے کسی کو بھی خاطر میں لائے بغیر مہاراجہ کو بتایا کہ عام عوام کے ساتھ ظلم کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یہ شخصیت ایک بہترین منتظم تھی، یہ حیران کن ہے کہ اس شخصیت کے پاس ایک منصوبہ تھا، وہ جانتی تھی کہ اس نے مہاراجہ پر لوگوں کے انحصار کو کسطرح کم کرنا ہے۔ اس شخصیت نے لوگون کو یہ باور کروایا کہ وہ مہاراجہ حکومت کے اداروں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں اسنے لوگوں کے اعتمادکے لئے ایک متبادل انتظامی نظام بھی لایا۔ عدالتی نظام انقلابی اقدامات میں سے سب سے اہم نظام تھا۔میرے لئے یہ حیران کن ہے کہ اسکی ایک علاقائی ریاست تھی،اس نے پہلے عدالتی منصف کی پالیسی شروع کی اور ہر گاوں میں عدالت لگائی، اس کے فیصلہ جات کو کوئی چیلنج نہیں کرتا تھا۔ اس نے شادی و طلاق کے جھگڑوں ،وراثت، زمین کی شکایات،زمین کے جھگڑے اور دیگر تمام کیسزکے فیصلہ جات کیے، اس کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوے فیصد سے زائد افراد نے مہاراجہ کی عدالتوں میں جانا ترک کر دیا تھا۔یہ بھی حیران کن ہے کہ پہلے پہل اس کی ایک مہر ہوتی تھی جس پر مولانا عبداللہ کفل گڑھی نارمہ راجپوت لکھا ہوا تھا لیکن بعدازاں جب ان کی عدالت کا دائرہ اختیار پونچھ کے دیگر علاقوں تک پھیلا تو انھوں نے یہ مہر استعمال کرنا ترک کر دی اور صرف کورٹ کے نام سے مہر استعمال کرنی شروع کی۔جیسا کہ آپ کے ایک مضبوط سپورٹر راجہ اکبر منہاس صاحب مرحوم نے مجھے اسوقت بتایا جب طالب علمی کی زندگی میں باغ تھا کہ مولانا ایک تیز چلنے والے گھوڑے پر سفر کیا کرتے تھے اور جب آپ کسی گاوں سے گزرتے تو لوگ آپ کے پاس کھڑے ہو جاتے اور درخواست کرتے کہ ہمارے جھگڑون کا فیصلہ کریں، وہ گھوڑے سے اترتے ،عدالتی ملازم کو کہتے دوسرے فریق کو بھی طلب کیا جائے، اور یوں عدالت شروع ہو جاتی، وہ کاغذ نکالتے اور ایک فریق سے شواہد لیتے اور پھر دوسری پارٹی کے پاس جاتے اس سے شواہد لیتے پھر دونوں فریقین کو بلاتے اورفیصلہ سناتے۔ ان کے فیصلے پر کوئی معترض نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ  پونچھ کے اسوقت کے لوگوں کے دلوں کے حکمران تھے، مہاراجہ ممکن ہے اپنی طاقتور فوج کے ذریعے حکومت کر رہا تھا لیکن مولانا اپنی روحانی طاقت سے حکمران تھے، وہ ایک ولی تھے،ایک ایسی شخصیت جس کا سامنے کرنے کی کوئی جرآت نہیں کرتا تھا، جب وہ کسی معاملے کے حوالے سے فیصلہ کرتے تو ان کا فیصلہ فائنل تصور کیا جاتا تھا، اسی (نظام انصاف) طرز پر انھون نے پھر تعلیمی نظام شروع کیا اور عام لوگوں میں ایک انقلاب بھرپا کیا۔
۔
عام افراد کی بے عزتی اور تذلیل:۔ 
۔
 جس چیر نے حالات کوخراب بنایا وہ تھا پبلک میں تذلیل کرنا، جیسا اگر کوئی گائے ذبح کرنے کے بارے مین رپورٹ کرتا تو لوکل ایجنٹ مہاراجہ کو ان افراد سے متعلق عموما اطلاع دیتے تھے جن کے گاوں کے نمبردار یا سیکورٹی چیف سے اختلاف ہوتے تھے تو دوسرے دن ہی پولیس مقامی ہندوون کے ساتھ پہنچ جاتی ان افراد کے چہرے پر سیاہ رنگ کر کے گدھے پر بٹھا کر پورے گاوں کا چکر لگوایا جاتا انھیں مارا پیٹا جاتا انھیں گالیاں دی جاتی اور ان افراد کوبقیہ پوری زندگی علیحدگی میں گزارنا پڑتی تھی۔ کوٹیڑی نجم خان، جہان لوگوں کی اتنی زیادہ تذلیل کی گئی کہ انھوں نے مولانا سے درخواست کی کہ اس حوالے سے کچھ اقدامات کریں، مولانا نے بھٹی ، جھڑ اور دوسرے علاقوں میں پیغام بھیجا کہ لوگ باغ پہنچیں، وہ لوگ مولانا کے مضبوط ساتھی تھے جو مولانا کے سیکورٹی کے محافظ تھے، جو تلواروں اور شکار کرنے والی بندوقوں کے ساتھ تھے، جب تک مولاناباغ پہنچتے اسوقت تک مہاراجہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سرادر عبد الحکیم خان اور نائب وزیر لالہ رام روہتھ کو اپنی پیرا ملٹری فوج کے ساتھ گرفتاری کے حکم کے ساتھ بھیج چکا تھا۔یہ عہدیداران اپنی مکمل تیاری کے ساتھ باغ آئے تھے کیونکہ مہاراجہ آف پونچھ کا حکم تھا کہ مولانا کو گرفتار کرنا ہے زندہ یا مردہ لیکن مولانا کے محافظین نے ان کی حفاظت کی اور ان کے قریب بھی آنے کی کی کسی نے جرآت بھی نہ کی۔یہ دو افراد نے بتایا ،راجہ اکبر منہاس صاحب ( جو کہ باغ شہر کے ایک کامیاب تاجر تھے) اور راجہ قاسم خان آف ہولڑ(جو مولانا کا لاؤڈ سپیکر جانے جاتے تھے) جو بلند آواز میں لوگوں کو باغ پہنچنے کا کہا کرتے تھے کیونکہ اسوقت کوئی دوسرے ذریعہ مواصلات نہ تھا، وہ بلند آواز تھے اور باغ کے دوسرے گاون کے لوگوں کو بھی بلند آواز میں باغ پہنچنے کے لئے کہتے تھے،دونوں نے مجھے بتایا کہ مولانا نے ہزاروں لوگوں سے اپنا خطاب مہاراجہ آف پونچھ کی مذمت کے ساتھ ختم کیا تو اپنے گھوڑے کی طرف جھڑ، غنی آباد اور بیس بگلہ وغیرہ کے درجنوں افراد کے ساتھ بڑھے۔پولیس کو حکم دیا گیا کہ وہ مولانا پرفائر کریں اس سے پہلے کہ ان محافظ ان کے اردگرد جمع ہوں اور وہ یہ جگہ چھوڑ کر چلیں جائیں، چنانچہ انھوں(پولیس) نے فائر کرنے کے لئے بندوقیں تیار کی ہوئین تھیں ، مولانا کے ہاتھ سے لہراتی ہوئی تلوار گری اور کوئی بھی فائر نہ کرسکا۔پولیس والوں نے بتایا کہ وہ مولانا کو پہچان ہی نہ سکے کیونکہ انھیں دو مولانا دو مختلف گھوڑوں پر دکھائی دیئے۔ یہ ڈوگرہ راج کی تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج تھا جیسا کہ مولانا جانتے تھے وہ اس قابل نہیں ہوں گے کہ پونچھ سے باہر کسی قسم کی مدد حاصل کر سکیں، لیکن ان کی باجرات کوشش کی وجہ سے   کشمیر کے مختلف حصوں لوگ (اپنے حقوق کے لئے) کھڑے ہوئے، مولانا پونچھ اور کشمیر کے لوگوں کے لئے ایک امید کا فرشتہ بن گئے۔
۔
 جو چیز امیر شریعت کو منفرد اور ممتاز بناتی ہے وہ ان کا( مہارجہ کے خلاف) سٹینڈ لینا تھا،آپ نے پونچھ کے لوگوں کو اپنی قیادت کی چھتری تلے منظم کیا اور پونچھ کے لوگوں کو یہ باور کروایا کہ مہاراجہ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے، اسے شکست دی جا سکتی ہے اور مہاراجہ کے علاوہ ریاست میں دوسرے لوگ بھی ہیں،جو اسی ریاست کے سٹیٹ سیبجکیٹ کے ساتھ شہری ہیں،اور ان کے حقوق بھی ویسے ہی ہیں جیسے مہاراجہ کے، اور مسلمانوں کے بنیادی تعلیمی ادارے بھی ہونے چاہیے، ان پر بھی ٹیکس کم ہونے چاہیے، انصاف تک ان کی رسائی بھی آسان ہونے چاہیے اور انھوں نے یہ باور کروایا کہ ان کی آواز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ چھوٹی سے ریاست پونچھ کہ اندر کوئی مذہبی سکالر گائے کہ گوشت پر پابندی کو چیلنج کر سکتا تھا، مولانا نے یہ چیلنج کیا بغیر کسی خوف کہ مہاراجہ کی فوج انھیں قتل کر دے گی۔ انڈیا میں تین سو ملین سے زاہد مسلمان ہیں برائے نام جمہوریت اور آزادی رائے بھی ہے لیکن کوئی ایک بھی سکالر نہیں اٹھا اور گائے کا گوشت کھانے پر دس سال کی سزا کو چیلنج نہیں کیا۔یہی وہ چیزیں ہیں جو امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی کو شیرپونچھ، ایک ہیرو اور اس تحریک آزادی کی کاوش کا بانی بناتی ہیں جوپونچھ کی بنیادی کمیونٹی کے منظم لوگوں کے تعاون سے کی گئی۔جس نے مولانا کو پونچھ کے لئے ایک فرشتہ ثابت کیا،۔ ان کے بے خوف تقاریر، اور انکی مذہبی اور دوسرے لوکل سکول کے حوالے سے انتظام، ان کا بے خوف ہو کر مہاراجہ راج کو چیلنج کرنا جب پورا کشمیر(ریاست جموں کشمیر) ڈوگرہ کی غلامی میں تھا، نے کشمیریوں کے لئے یہ ثابت کیا کہ ہر دور میں ہمیشہ یزید کے مقابلے میں ایک حسین ہوتا ہے۔ سردار محمد حسین دھڑے، پیر سید اصغر حسین شاہ صاحب آف سیری پیراں، اور راجہ اکبر مہاس مرحوم آف باغ کے کہنے کے مطابق مولانا ایک ایسی معجزاتی شخصیت تھیں جس نے ایک خاص مقصد لئے خطے کی تاریخ کو بدل ڈالا۔، 











Thursday 7 September 2017

کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز



میں وضاحت کے لئے چند الفاظ لکھنا چاہتا ہوں جو کوشش کے باوجود کچھ طویل ہوں گے لیکن کوشش کروں گا کے تحریر اتنی طوالت اختیار نہ کرے کہ خود ایک کتاب بن جائے۔ اس لئے بہت سے واقعات کی معلومات ہونے کے باوجود صرف ضروری واقعات کا ذکر کرنے مناسب سمجھوں گا جو حقیقت کو کسی حد تک واضح کر سکیں۔
انیس سو سینتالیس میںجو مسلح بغاوت کی گئی بد قسمتی سے اسکا اختتام وہ نہ ہو سکا جو اسکے شروع کرنے والوں نے سوچا تھا۔اس بغاوت کا مقصد اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے مسلح جدوجہد تھا کیونکہ سیاسی طور پر کی گئی جدوجہد سے وہ حقوق نہیں دیے گئے۔اسکی کی شروع کرنے کی بہت سے وجوہات ہیں جس میں سے چند کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
نمر1:۔۔۔۔ جب ڈوگرہ نے دوسری جنگ عظیم میں شرکت کر کے واپس آئے ہزاروں سابق فوجی سپاہیوں اور آفیسران کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنی ریاستی فوج کا حصہ نہیں بنایا جبکہ دوسری طرف ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے فوجی افراد کو قبولیت بخشی۔ اس وجہ سے سابقہ برٹش دور کے مسلم فوجی سپاہی اور آفیسران ڈوگرہ سے نالاں اور بے چین تھے۔اور سیاسی لیڈرشپ کا بھی خیال تھا کہ ڈوگرہ نے یہ حکمت عملی اس لئے اپنائی ہوئی ہے تاکہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھے۔
نمبر2:۔۔۔۔۔ ڈوگرہ نے کئی مسلمان سرکاری ملازمین کو بھی ملازمتوں سے فارغ کر کے انکی جگہ ہندو ملازمین بھرتی کیے تھے تاکہ حکومتی امور میں اپنی گرفت مضبوط رکھ سکے۔اس اقدام سے سول مسلم آبادی میں بھی بے چینی پائی جاتی تھی۔ یاد رہے ان ملازمین کی بحالی کے حوالے سے امیر شریعت نے ڈوگرہ کے خلاف احتجاج بھی کیے تھے۔
نمبر3:۔۔۔۔۔ڈوگرہ کے باقی ظلم و ستم کے علاوہ درج بالا اقدامات جو قیام پاکستان کے اعلان کے بعد کیے گئے نے مسلم آبادی کو اس خدشے میں مبتلا کر دیا تھا کہ کہیں مہاراجہ اندرون خانہ تقسیم برصغیر کے فلسفے کے تحت انڈیا سے الحاق نہ کر بیٹھے۔مہاراجہ ہری سنگھ کا سٹینڈ سٹل معاہدا پاکستان کے منظور کیا ہوا تھا لیکن مہاراجہ نے اپنا وزیر اعظم جو ریاست کے مستقبل کے حوالے سے اپنا ایک موقف رکھتا تھا اسکو انڈین لابی کی منشا کے مطابق تبدیل کر کے مسلمانوں کے اس خدشے کو مزید تقویت دی۔
نمبر 4:۔۔۔ریاست کے اندرونی حالات کے ساتھ ساتھ بیرونی پیش رفت مثلا حیدرآباد دکن اور ریاست جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کو انڈیا کیطرف سے تسلیم نہ کرنا،انڈیا کا سٹینڈ سٹل معاہدا تسلیم کرنے کے بجائے ڈوگرہ پر الحاق کا دباو قائم کرنا اور ڈوگرہ کا اپنا وزیراعظم جو ریاست کے مستقبل کے حوالے سے ایک خاص موقف رکھتا تھا کو برخاست کرنے کے ریاست کے مسلمانوں کے اس شک کو یقین میں بدل دیا کہ ریاست مستقبل میں انڈیا کا ہی حصہ بن سکتی ہے۔
چنانچہ درج بالا صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں ایک طرف برٹش آرمی سے ریٹائرڈ فوجی آفیسران جو ریاست کا پشتنی سرٹیفکیٹ رکھتے تھے نے مسلحہ جد و جہد شروع کرنے کے لئے آپس میں اور دیگر سیاسی لیڈرشپ سے مشاورت شروع کی تو دوسری طرف سیاسی لیڈرشپ نے بھی آپس میں مشاورت شروع کی اور آخر کار سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی۔ اس الحاق کی قرارداد کا مقصد قطع اپنی شناخت ختم کرتے ہوئے پاکستان میں ضم ہونا نہیں تھا بلکہ اس الحاق کے خدوخال طے کرنا مستقبل پر رکھا گیا تھا (جو آج بھی اسی صورتحال میں ہے جسے پاکستان ھے بھی اپنے آئین کے آرٹیکل 257 کے ساتھ تحفظ دیا ہوا ہے)۔
ابھی ریاست کی سیاسی جز وجہد پر یقین رکھنے والے اور مسلحہ جدوجہد کی رائے رکھنے والے ابھی باہمی مشاورت میں ہی مصروف تھے جسکے لئے جگہ جگہ میٹنگز اور جلسے کو رہے تھے جیسے جون 1947 میں مولوی اقبال صاحب کے گھر ہونے والی میٹنگ، 13 اگست 1947 کو باغ کے مقام پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوام کا جلوس اور سید حسن شاہ گردیزی کا خطاب، 15 اگست راولاکوٹ کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور جلوس، 19 اگست عید والے دن دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور راولاکوٹ کے مقام پر جلسہ، 23 اگست نیلہ بٹ کے مقام پرسید شمشاد حسن شاۃ کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگ اور اس میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے اور باغ جلسے میں شمولیت کا قرآن پر حلف، 26 اگست ہڈا باڑی کے مقام پر ملٹری کیمپ کے سامنے ہونے والا جلسہ وغیرہ شامل ہیں جس پر پہلی مرتبہ ڈوگرہ فوج نے عام جلوس پر گولی چلائی اور کئی مسلمان زخمی اور قابل خان کے علاوہ کئی دوسرے مسلمان بھی شہید ہوئے اور اسی طرح ڈوگرہ فوج نے ہاڑی گہل کے مقام پر بھی فائرنگ کر کے دو افراد کو شہید کیا جس میں سے ایک شہید ہونے والے امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی مرحوم کے بھائی نور عالم بھی شامل تھے۔
۔ایک طرف یہ باہمی مشاورت ابھی چل رہی تھی اور ابھی مسح جد وجہد شروع کرنے کا کسی قسم کا کوئی اجتماعی فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ ایک خاص واقع پیش آئے وہ یہ تھا کہ ڈوگرہ فورس کا ایک کانوائے دھیرکوٹ کی طرف سے باغ جا رہا تھا کہ راسے میں جھالہ کے مقام پر مولوی محمد بخش مرحوم اور سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم نے اس کانوائے پر فائرنگ کی۔ یہ پہلا فائرتھا جو ڈوگرہ فورس پر انتقام کی نیت سے کیا گیا۔ اسکے ردعمل میں ڈوگرہ فورس نے سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم کے گھرکو نقصان پہنچائے اور بتلایا جاتا ہے کہ ان کے گھر جلایا گیا۔ جسکے ردعمل میں میں علاقے کے لوگوں نے ڈوگرہ پولیس سٹیشن پر حملہ کیا۔ جوابی کاروائی میں مسلمان بھی شہید ہوئے۔ ڈوگرہ نے اس حملے کی خبر پر اپنی فورس باغ کی طرف متحرک کی۔ یوں اس مسلح تحریک کوئی اجتماعی فیصلہ ہونے سے پہلے ہی حادثے کے طور پر شروع ہو گئی۔ اور مسلمانوں نے باغ کی طرف آنے والی ڈوگرہ فوج پر دوتھان کے مقام پر حملہ کیا جو باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا جس میں پانچ مسلمان شہید ہوئے لیکن ڈوگرہ فوج کو بھی بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ جب یہ واقعات ہوئے تو وہ سابقہ آفیسر جو پہلے ہی مسلح جد و جہد کو پروگرام رکھتے تھے انھوں نے عام سول آبادی جو امیر شریعت کے پے درپے ایجی ٹیشن اور احتجاجوں کی وجہ سے نڈراور بےخوف ہو چکی تھی سے مل کر باقاعدہ مسلح تحریک کا آغاز کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنتالیس سے پہلے ایک قائدانہ کردار ادا کرنے والے امیر شریعت کا سنتالیس میں کیا کردار تھا۔؟اس حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ امیر شریعت ایک ایسی شخصیت تھی جو قائد تھی جس کا ریاست کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنا ایک ویژن اور سوچ تھی جو آپ کی سنتالیس سے پہلے کی گئی جد و جہد سے مکمل طور پر واضح ہے۔ لیکن بطور سیاسی لیڈرشپ آپ ریاست کے اندر اور ریاست کے باہر ہونے والے واقعات پرگہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ اور بدلتی ہوئی سیاسی حالات اس طرف نشاندہی کر رہے تھے کہ اب دوہی آپشن بنتے جا رہے ہیں یا تو ریاست انڈیا کے پاس جائے گی یا ڈوگرہ راج مزید طوالت اختیار کرے گا۔ آپ کی ماضی کی سیاسی جدو جہد کا یہ اثر تھا کہ پرانی ریاست پونچھ کا تقریبا ہر شہری نڈر و بے خوف ہو چکا تھا اور اپنے حقوق کی خاطر سیاسی ہی نہیں بلکہ مسلح بھی ٹکرانے کے لئے تیار بیٹھا تھا۔ دوسری طرف سیکنڈ لائن کی سیاسی لیڈرشپ اور برٹش آرمی کے سابقہ فوجی آفیسران مسلح جد و جہد شروع کرنے کا تقریبا فیصلہ کرنے کے قریب تھے۔
اس صورتحال کے تحت آپ نے بھی اپنی حکمت عملی ترتیب دینی تھی ایک طرف ڈوگرہ راج تھا جسکی حمایت آپ کسی صورت نہیں کر سکتے تھے اور دوسری طرف مسلح جدوجہد کے لئے آپ کے رفقاء، جانثاران سمیت برٹش آرمی سے ریٹائرڈ فوجی آفیسران اور سپاہی تیار بیٹھے تھے۔ آپ اگرکھل کر مسلح جد و جہد کا ساتھ دینے یا قیادت کا فیصلہ کرتے تو تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی ڈوگرہ فوج جن کی ہٹ لسٹ پر آپ اور آپ کے رفقاء اور آپ سے منسلک ؑعام آبادی تھی کو ڈوگرہ نشان عبرت بنانے کے لئے وہی بد ترین تشدد کرتے جو انھوں نے جموں میں کیا اور لاکھوں مسلمانوں کو شہید اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ دوسری طرف آپ اگر مسلح جد و جہد کا ساتھ نہ دیتے تو اس جد و جہد کے ناکام ہونے کے واضح چانسز تھے جسکے بعد دوبارہ کبھی یہاں کی آبادی کو ڈوگرہ راج سے نجات کا موقع نہ ملتا۔ لہذا ان زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے بطور لیڈر آپ نے سیاسی فیصلہ کیا اوربطور خود مسلح جنریل کے بجائے سیاسی لیڈر کے طور پر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی ترتیب دی۔ اس حکمت عملی کا مقصد یہ تھا کہ بطور سیاسی لیڈر عام پبلک چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم کو خون خرابے سے بچایا جائے اور تحریک کا رخ صرف ڈوگرہ مسلح فوج کی طرف ہی رکھا جائے۔ اسی سلسلے میں آپ نے اپنے گھر کو دارالامان قرار دیا جہاں کئی غیر مسلم جو غیر مسلح اور عام آبادی سے تعلق رکھتے تھے نے دوران مسلح تحریک پناہ بھی لی۔
۔
جبکہ
۔
دوسری طرف آپ نے مسلح جہادجس کا مقصد ریاستی تشخص برقرار رکھتے ہوئے ڈوگرہ کے ظلم و ستم سے نجات تھا میں عملی طور پر حصہ لینے کے لئے اپنے بھائی استاد علماء مولانا مفتی امیر عالم مرحوم جو ایک مستند عالم دین اور دیوبند سے فارغ االتحصیل تھے کو آگے کیا۔ جنہوں نے جہاد کا فتوی دیا اور دفعہ 144 کی کئی مرتبہ خلاف ورزی کی اور اس تحریک میں سردار عبد القیوم خان مرحوم کے شانہ بشانہ چلے۔ خود امیر شریعت کے وفادار جانثاران نے اپنے آپ کو منظم کیا اور کیپٹن نور حسین خان مرحوم کی قیادت میں ایک فورس بنائی جس نے جہاد میں عملی طور پر جانے سے پہلے باقاعدہ طور پر امیر شریعت کے سلامی بھی دی ( یہ واقعہ محمد یوسف خان مرحوم جو خوداس دستے کا حصہ تھے نے بتایا تھا آج ان کے بیٹے اور پوتے زندہ ہیں جن سے تصدیق لی جا سکتی ہے)۔ امیر شریعت کی اس حکمت عملی سے مسلح تحریک بھی کامیاب ہوئی اور یہاں کی عام آبادی چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم دونوں کسی بڑے خون خرابے سے محفوظ رہی۔

لیکن بد قسمتی سے جوں جوں تحریک آگے چلی اس تحریک کی قیادت جو اسوقت کی سیکنڈ لیڈرشپ کی پاس تھی اپنے کنٹرول میں نہ رکھ سکی جسکی وجہ سے ایک مکمل طور پر مقامی طور پر شروع کی گئی تحریک کو قبائلی یلغار کا رنگ دے دیا گیا اور ڈوگرہ اور انڈیا کو موقع ملا جنہوں نے فائدہ اٹھایا اور اسے ریاست پر غیر ریاستی حملہ سے تشبیہ دیتے ہوئے پہلے انڈیا کے ساتھ الحاق اور پھر انڈین افواج سرینگر اتاردی۔ معاملہ یو این او لے جائے گا جہاں اب تک رل رہا ہے۔ لیکن ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ امیر شریعت کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ پہلے سردار محمد ابراہیم خان نے ریاستی تشخص کی بات جسکی پاداش میں انھیں آزادحکومت کے قیام کے ساتھ ہی معزول ہونا پڑا اور اسی طرح آخر دم تک سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم ہمیشہ ریاستی تشخص کی بات کرتے رہے انھوں نے ہمیشہ الحاق پاکستان کی بات کی لیکن ساتھ ہی ساتھ ریاستی تشخص کی بھی بات کی۔ اب تنقید کے بجائے غورو فکر کرنے والوں کو سمجھ آ جانا چاہیے کہ الحاق اور ریاستی تشخص دونوں کا ایک ساتھ اظہار کا کیا مطلب ہے۔ الحاق کا مطلب قطع ضم ہونا لینا اپنے اکابرین کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔

Wednesday 6 September 2017

امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی


ایک مختصر ذکر اس  جدوجہد کے بارے میں جوپونچھ کے لوگوں کے تحفظ کے لئے تمام متصادم/مخالف قوتوں کے خلاف  اس شخص کی جانب سے کی گئی جو شیرپونچھ کہلایا گیا، شیر پونچھ امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی پونچھ کشمیر کا ایک ایسا ہیرو جسے دانستہ خارج از ذہن کیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از راجہ حبیب جالب چیرمین جموں و کشمیر ہیومین رائٹس کونسل انٹیلی جنس ونگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو اس جد وجہد (جو امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی مرحوم نے کی)  کی کہانی کا احاطہ کرنے کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے لیکن میں مختصر طور پر آج کی نوجوان نسل کی آگاہی کے لئے لکھوں گا تاکہ وہ جان سکیں کہ یہی وہ لوگ تھے جو پونچھ کے لوگوں کے لئے آزادی لائےمولانا ہی وہ وفادار شخصیت تھی جو ایسے وقت میں کھڑی ہوئی جب پورا کشمیر غربت میں جکھڑا ہوا تھا، کوئی تعلیمی ادرے نہ تھے، کہیں روزگار کے مواقع نہ تھے، ٹیکسوں کی بھرمار تھی اور اس غربت اور ڈوگرہ راج سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔
۔
مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی مرحوم نارمہ راجپوت قبیلے کی ایک  فیملی مولوی راجہ محمد جنگباز کے گھر 1896 میں پیدا ہوئے۔اسوقت آپ کے قرب و جوار میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں تھا اور آپ کے والد کے لئے یہ مشکل تھا کہ آپ کو دوردرازریاست پونچھ سے باہر تعلیم کے لئے بھیجیں ، لیکن عین اسی وقت اسی ایریا کی ایک اور اہم شخصیت مولانا عالم دین صاحب دیوبند سے اپنی تعلیم مکمل کر واپس کفل گڑھ آ چکے تھے اور انھوں نے کفل گڑھ میں ہی ایک تدریس گاہ شروع کر دی تھی، وہیں سے امیر شریعت نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، جلد ہی مولانا عالم دین صاحب کو اپنے اس طالب علم کی استعداد، دلیری اور بہادری کا اندازہ ہو گیا جسکی بنیاد پر انھوں نے اس طالب علم سے درخواست کی کہ وہ اس ایریا سے باہر جا کر اپنی تعلیم جاری رکھے جہاں کشمیر کے دوسرے لوگوں اور کشمیر کے حالات سے جاننے کے زیادہ مواقع ہوں، چنانچہ آپ نے گولڑہ شریف کا رخ کیا جہاں پیر مہر علی شاۃ صاحب سے ملے جنہوں نے آپ کو دیوبند جانے کا مشورہ دیا، چنانچہ آپ نے دیوبند کا سفر کیا اور کچھ عرصہ کے لئے وہاں رہے جہاں آپ نے کشمیر سے آئے دوسرے طالب علموں سے ملاقاتئیں کی جنہوں نے آپ کو کشمیر کے لوگوں کے بری حالت جو ڈوگرہ راج کی وجہ سے تھی کے بارے میں بتایا۔ جلد ہی امیر شریعت کو یہ احساس ہو گیا کہ لوگوں کی مدد اور ڈوگرہ راج کو روکنے کے لئے کچھ کچھ ضرور کرنا ہو گا۔
۔
جب مولانا واپس آئے تو آپ پیر مہر علی شاۃ صاحب سے ملے جنہوں نے آپ کو کہا کہ آپ تحریک کا آغاز اپنے قبیلے سے کریں اور پھر اسے دوسرے قبائل تک وسعت دیں تاکہ وہ بنیادی طاقت میسر ہو سکے جو لوگوں کے لئے لڑ سکے۔چنانچہ آپ واپس گھر آئے اور اپنی بنیاد بھٹی سے شروع کی جہاں آپ کی زمین بھی تھی۔بھٹی میں اسوقت ایک بزرگ جنہیں فقیر صاحب آف بھٹی کہا جاتا تھا رہتے تھے وہ پیدل حج کے سفر پر گئے اور جب واپس آئے تو اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کر دی تھی۔ایک دن مولانا جھڑ سفر پر تھے تو وہاں کہ ایک طاقت ور شخص راجہ محمد شیر خان کو آپ نے چیلنج کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ دو گھنٹے تک کشتی ہوتی رہی اور کسی نےجب شکست تسلیم نہ کی تو تب فقیر صاحب آف بھٹی نے مولانا کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ زندگی میں آپ کو کوئی شکست نہیں دے سکے گا۔وہ اپنے زمانے کے ایک بڑے ریسلر بھی تھے۔آپ نے پہلے پہل تعلیم ادارے اور مساجد بنوائیں شروع کیں تاکہ نوجوان نسل تعلیم حاصل کر سکے تب آپ نے تب آپ نے اپنی سیکورٹی فورس  جوتلوار اور رائفل( جو بارود والے پاوڈر سے چلتی تھی لیکن کافی مہلک ہوتی تھی اورعموما شکار کے لئے استعمال کی جاتی تھں) بردار تھی تیار کی۔ جلد ہی ایک منظم فورس جو آپ کے لئے لڑ سکے تیار ہو گئی تب آپ نے دوسرے قبائل کی طرف بھی رخ کیا۔ کرنل خان محمد خان اور مولانا غلام حیدر جھنڈالوی اہم شخصیات میں شامل تھیں جو ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑی رہیں۔آپ نے ایک مذہبی مدرسہ کفل گڑھ قائم کیا جو بعد میں ہاڑی گہل شفٹ ہو گیا اور جس کے منتظم آپ کے بیٹے مولانا مفتی قاضی بشیر احمد صاحب مرحوم بھی کافی عرصے تک رہے۔ اسی طرح آپ نے ایک مدرسہ فیض القرآن بیس بگلہ مولانا عبد الغنی مرحوم کی سرپرستی میں بنوایا اور چیڑان میں مڈل سکول سمیت کئی دوسرے تعلیمی اداروں کی بنیاد بھی آپ نے رکھی۔ 

عدالتی نظام
آپ کی خدمات اور کارناموں میں سے سب سے اہم غریب افراد کے لئے عدالتی نظام کا قیام تھا جس کے لئے لوگ پونچھ شہر تک سفر کر کے اپنے پیسہ ضائع کیا کرتے تھے۔آپ نے بنیادی طور پر ایک عدالتی نظام قائم کیا، جسکے ایک ملازم (نقارہ پکارنے والا) راجہ منا خان آف غنی آباد بھی تھا۔وہ ایک سیپرا تھا جسکے پاس ہمیشہ سانب ہوا کرتا تھا۔  طریقہ یہ ہوتا تھا جب مولانا تشریف لاتے تو یہ ملازم گھنٹی بجا کر لوگوں کو مطلع کرتا کہ عدالت شروع ہونے والی ہے چنانچہ عدالتی کاروائی شروع ہوتی اور ضابطہ کاروائی کے بعد فیصلے ہوتے  جو فائنل ہوتے تھے جن کا ماننا ہر ایک پر ضروری ہوتا تھاان کو علاقے کی حکمران کی طرح شمار کیا جاتا تھا۔چنانچہ ایسی طاقت کے ساتھ انھوں نے کشمیر کے لوگوں کے ساتھ تعلق استوار کیا۔انھوں نے گرد و نواح میں کشمیر کے مختلف لوگوں کو خط لکھے۔ کشمیر اور باغ کے زیادہ تر لوگوں نے بغیر کسی سوال کے آپ کو اندھے یقین کے ساتھ فالو کرنا شروع کر دیا۔ سردار محمد حسین خان آف دھڑیں، پیر سید اصغر علی شاہ صاحب آف سیری پیراں، سید حسن شاۃ گردیزی، راجہ اکبر منہاس اور باقی تمام افراد چاہے وہ نارمہ یا سدھن قبیلہ کے ہوں  نے بھی سب کے سامنے آپ کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا اور آپ کو پونچھ  کے لوگوں کا ایک متفقہ لیڈر بنا دیا۔جسکی وجہ سے آپ کی آواز پونچھ کے لوگوں کے مسائل کے حوالے سے مزید طاقتور ہو گئی۔ مولانا نے 1924 میں ایک آزاد ریاست پونچھ کی حمایت بھی کی لیکن بعد میں دوسرے کشمیری راہنماوں کی درخواست پر اس معاملہ سے علیحدہ ہو گئے۔ 
۔
جب ہاڑی گہل کے مقام پر ایک چھوٹی مسجد کو جلایا گیا تو آپ نے لوگوں کو لے کر پونچھ شہر کا رخ کیا۔ راستے میں مختلف قافلے آپ کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ غازی کشمیر فتح محمد کریلوی بھی تقریبا 400 افراد پر مشتمل قافلہ لے کرپونچھ شہر پہنچے اور پونچھ شہر میں اس احتجاج میں حصہ لینے والوں کے کھانے کا انتظام بھی کیا جس کا اظہار انھوں نے مولانا مفتی بشیر احمد صاحب کو خط لکھ کر بھی کیا۔ مولانا کی طاقت دیکھنے کے بعد راجہ جگدیو  اور سیشن جج محمد ایوب خان نے راجہ آف پونچھ کی طرف سے معذرت کی اور نئی مسجد بنوانے کے لئے معاوضہ دیا۔ ڈوگرہ راج کی پونچھ میں یہ ایک بڑی شکست تھی۔ 
۔
توہین قرآن

پونچھ جیل میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بارے میں تو کئی لوگوں کو پتہ تھا لیکن ایک دن جیل کے ڈاکٹر رام سنگھ نے قیدیوں کو قرآن مجید پڑھتے دیکھا تو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا، رپورٹ کرنے والے بتاتے ہیں کہ کئی قیدی قتل بھی کیے گئے۔مولانا اس واقعے کے خلاف ایک بڑا قافلہ لے کر پونچھ پہنچے اور  ڈاکٹر رام سنگھ کو فارغ کرنے تک واپس جانے سے  انکار کر دیا۔آخر کار راجہ جگدیو سنگھ نے سمجھوتے کے لئے درخواست کی، پنڈت ناتھ بزاز، بخشی غلام محمدنے بھی   مطالبہ کیا کہ  مولانا کی ڈیمانڈ کے مطابق معاملے کا حل کیا جائے، چنانہ ڈاکٹر رام سنگھ نوکری سے برخاست کیا گیا اور 
ایک مرتبہ پھر مولان کی مہارجہ کے خلاف جیت ہوئی۔
  آپ  ریاست کے مسلمان ملازمین کے حقوق کے لئے بھی پونچھ شہر گئے جن کو ملازمتوں سے فارغ کر کے انکی جگہ ہندو ملازمیں بھرتی کیا گیا تاکہ مسلم آبادی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اور 1945 میں گاو کشی کیس میں پولیس کی طرف سے چوکی کوٹیڑی سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر تشدد کے حوالے سے آپ سردار محمد حسین خان دھری کی درخواست پر کھڑے ہو گئے ، ہزاوروں لوگ کفل گڑھ، بھٹی، غنی آباد، جھڑ، تھب اور دوسرے علاقوں سے باغ پہنچے جہاں ایک تاریخ ساز تقریر مولانا نے کی جہاں آپ نے بیلی رام تحصیلدار کو دیکھا تو کہاں اگر گائے آپ کی ماں ہے تو بیل آپ کا باپ ہونا چاہیے۔ اس نے مولانا کو گرفتار کرنے کا حکم دیا لیکن آپ کی حفاظت کی خاطر آپ کے فالورز کی ایک طاقت ور فورس موجود تھی جس نے  آپ کی حفاظت کی۔سردار مختار خان ایڈوویکیٹ جو اس گاؤ کشی کے حوالے سے منعقدہ ایک جلواس میں شریک تھے کہتے ہیں کہ مولانا گاو کشی کے حوالے سے ایک جلسہ کے لئے ہورنہ میرہ سے کوٹیڑی نجم خان پہنچے جہاں مہاراجہ نے مولان محمد عبداللہ کفل گڑھی اور مولانا غلام حیدر جنڈالوی کی گرفتاری کے لئے ایک بڑی فوج اور نائب وزیر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سردار عبد الحکیم خان کو بھیجا،جو مہاراجہ پونچھ کے ایک سابقہ اے ڈی سی صوبیدار محمد خان سے ملےجنہوں نے انھیں بتایا کہ مولانا گفتگو کے بعد گرفتاری دے دیں گے لیکن اسی دوران مولانا اس ایریا سے چلے گئے کیونکہ ان کے فالورز گرفتاری دینے پر آمادہ نہ تھے اور ہم کوئی خون خرابہ نہیں چاہتے تھے چنانچہ مولانا باغ پہنچے اور انھیں کوئی بھی چھونے کی جرآت نہ کر سکا کیوں کہ ان کے قبیلے کے لوگ ان پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ 
۔
مولانا نے لوگوں کا اتنا بے خوف بنا دیا تھا کہ وہ مہاراجہ کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں چنانچہ اس دور کے اختتام پر ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس میں نمائندگی کے لئے کرنل خان محمد خان اپنے قبیلے کے ایک نئے فرد سردار محمد ابراہیم خان  جنہوں نے ابھی بیرسٹری کی تعلیم مکمل کی تھی کو لے کر بطورامیدوار قانون اسمبلی مولانا کے پاس تشریف لائے اور درخواست کی کہ آپ سردار محمد ابراہیم خان پر اپنا ہاتھ رکھیں کیونکہ مولانا کی صحت خود اب اتنی اچھی نہیں تھی اور کرنل خان محمد خان اس تحریک کے لئے نئے اور تازہ خون کی نمائندگی چاہتے تھے چنانچہ مولانا نے سردار محمد ابراہیم خان پر دست شفقت رکھا اور انکی سپورٹ کشمیر اسمبلی کا ممبر بننے کے حوالے سے کی۔سردار محمد ابراہیم خان ہمیشہ مولانا کی اس حمایت پر ان کے مشکور رہے اسی طرح مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا مفتی امیر عالم صاحب مرحوم جنہوں نے پہلے پلندری میں مدرسہ تعلیم قرآن( جس کے منتظم آجکل شیخ الحدیث مولانا سعید یوسف صاحب ہیں) کی بنیاد رکھی نے بھی اس تحریک اور جد و جہد  کا ساتھ دیا جو مہاراجہ کے خلاف کی گئی۔
آج یہ نوٹ کرتے ہوئے حیرانگی ہو رہی ہے کہ باغ کے وہ افراد جو مہارجہ کے خلاف لڑے وہ  مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی کی دفاعی فورس سے تعلق رکھنے والے افراد تھے جن میں صوبیدار علی اکبر خان المعروف پول صاحب،حویلدار میجر سلیمان خان فاتح نانگا پیر،صوبیدار راجہ علی بہادر خان فاتح ٹنگیاٹ اور دیگر ہزاروں افراد شامل ہیں جو مولانا کی دفاعی فورس سے تعلق رکھتے تھے اور پونچھ سیکٹر میں مہاراجہ کے خلاف لڑے جیسے مجھے صوبیدار علی اکبر خان صاحب نے بتایا کہ امیر شریعت آنے والے صورت حال سے آگاہ تھے اس لئے انھوں نے ہمیں تیار رہنے کا کہا ، ہم نے ہر گاؤن میں دفاعی کمیٹیاں بنائیں اور ان کی خواہشات پر عمل کیا۔ اسوقت کوئی نیلہ بٹ کی سٹیٹمنٹ نہ تھی اور کسی نہ نیلہ بٹ کوفالو نہیں کیا تھا ہم لڑنے کے لئے تیار تھے اور ہم ڈوگرہ کے خلاف فیس ٹو فیس مولانا کی ہدایت پر لڑے۔
۔ 
یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم کے قرار داد الحاق پاکستان پاس کرنے کے حوالے سے کوئی کردار نہیں تھا یہ قرارداد پہلے ہی سردار محمد ابراہیم خان کے گھر سرینگر میں پاس کی گئی تھی اور یہ بھی ہے کہ کوئی حقیقی طور پر نہیں جانتا کہ نیلہ بٹ پر اسوقت کیا گیا کہ کیونکہ وہاں ڈوگرہ کی کوئی فوج نہیں تھیں بلکہ چند پولیس آفیسر اور دیگر افراد تھے چنانچہ نیلہ بٹ کے مقام پر کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی سوائے راجہ شیر زمان خان کی شہادت کے۔
یہ ایک مذاق ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب نے آسمان کی طرف گولی چلائی اور تحریک آزادی کے لئے جنگ کا آغاز کیا ہمیں اس پر ہنسنا ہی ہے۔ پونچھ کے ہیرو امر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی مرحوم تھے جنہوں نے زندگی کی آخری لمحے تک ایک پیسہ بھی اپنی خدمات کے عوض مفاد حاصل نہیں کیا۔ وہ حقیقی طور پر ایک ہیروتھے جنہوں نے سردار محمد ابراہیم خان کی غیر قانونی معزولی کے خلاف بغاوت کی اور باغی حکومت بنائی جب تک کے آزاد کشمیرکی قانونی حیثیت کو تسلیم نہ کیا گیا۔چنانچہ نیلہ بٹ کہانی محض من گھڑت سٹوری ہے حکومت پاکستان کے سخت ایکشن کے بعد سردار محمد عبدالقیوم خان نے یہ بتانے کےلئے جگہ بنائی کہ وہ اوجڑی کیمپ کے وفادار ہیں اور اسطرح کشمیر کی تمام تاریخ مسخ کر دی گئی۔ سردار محمد عبدالقیوم خاں صاحب نے حکومت پاکستان کے غیر قانونی ایکشن کے خلاف کی گئی بغاوت کوپاکستان کی با اختیار آرمی کو بے وقوف بنانے کے لئے ایک موقع کے طور پر استعمال کیااور ایک مخصوص مقام کے علاوہ دولت اور طاقت کمائی اور تحریک آزادی کشمیر کی جدو جہد کی تاریخ کو مسخ کیا۔ اور تحریک ازادی کی جد و جہد  کے اصل ہیرو مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی، سردار محمد ابراہیم خان  اور درج ذیل افراد ہیں ۔

 حقیقی مجاہد اول کرنل مرزا حیسین خان آف گلگت جنہوں نےتمام شمالی علاقہ آزاد کروایا۔کیپٹن حسین شہید آف راولاکوٹ ایک پونچھ کے ہیرو۔ کرنل راجہ نور حسین خان ایک پونچھ سیکٹر کے ہیرو۔۔۔حویلدار میجر راجہ سلیمان خان فاتح نانگا پیر۔۔۔صوبیدار علی اکبر خان المعروف پول صاحب جنہوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ دھیرکوٹ اور نیلہ بٹ پولیس سٹیشن پر حملہ کیا تھا،کرنل منچا خان،کرنل خان آف منگ، میجر ایوب خان آف باغ،پیر اصغر علی شاۃ صاحب آف سیری پیراں،سردار محمد عبد القیوم خان بطور  آپریشنل کمانڈر آف سپلائی لائن باغ ( اسلحہ اور افراد)یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ مولانا عبد اللہ کفل گڑھی مستقل طور پر اسلحے اور مجاہدین کی فراہمیابی کے لئے پاک آرمی آفیسرز کے ساتھ رابطے میں تھے وہ اس سلسلے میں اپنے قبیلے کے مختلف گاوں میں پیغامات بھیج رہے تھے کہ لوگ فرنٹ لائن پر جائیں۔میں مستقبل میں کچھ مزید واقعات آپ کے سامنے لاوں گا۔ 
(B.A.LL.B (Pb)راجہ حبیب جالب
D.LL.H(chi) D.M.A.L(Gold-medalist)  







Sunday 25 May 2014

KEY OF PROSPERITY & DEVELOPMENT FOR AJ&K REGION

Azad Jammu & Kashmir abbreviated AJ&K is a region which has up to some extent an autonomous administration. AJ&K covers the area of 13,297 square kilometer and has the population of few millions.Administratively it is divided into three division until now. This region has a lot of potential in the form of GOD gifted talent and natural resources. But unfortunately due current election system ,visionary leadership could not reach to helm of the government until now due to which this area is still below the under develop in 21st century.   
The first and more important step to lead the region in the era of development is the identification of problems and identification of resources and way of utilizing them to address these problems. We are facing the biggest problem we are still not independent in both physically and spiritually. We could not run activities freely to act as a base camp for freedom of whole region i.e Kashmir state. Second problem is using the authority which we have in very illiterate way and only to accomplish the vested interest not public interest. Owing to these two problems our economic condition is so worst and due to this economic condition we are bound to think with belly not brain. 
We can achieve our goal by using the authority we have ,in a right manner. We have an authority to make policies in favor of public not individuals interest. We have a number of natural resources like rivers,beautiful green and hilly land,a number of precious stone like ruby etc,medicinal herbs,forest which have important trees like pine,poplar etc, Fruit bearing and dry fruit trees and the most important one is sharp minded people. 
 If we use these resources in a right manner we can reach to our goals. These resources can be used in a right manner only having a  education with full quality  about every resource. Our schools,colleges and universities are giving education without quality. Due to this reason our graduates of every field are confused in there practical life. We have Engineering & Technology universities without engineering and technology.We have agricultural university without quality,similarly we have a campus of geology without quality of education. In simple words we have education system which are distributing degrees not knowledge. 
No doubt we have not enough resources to develop industries in the region to accelerate the development of the region but we have enough resources to improve our education system. If we convert this region in an education city in which our university are able to provide such a graduate who can offer services to multinational companies in order to address there issues then in a short period we will be the owner of many skills.World will approach to you due to these skills.So only one way and the key of prosperity and development for the region is the education with quality. In next post shall discuss the skills types and there applications.

Sunday 16 March 2014

Notable dates of 1947 About Kashmir

Notable dates of 1947 About Kashmir 




  • June 11: Quaid-e-Azam declares policy of not putting any pressure on any state in making its choice.
  • July 19: Convention of Muslim Conference urges Kashmir’s accession to Pakistan.
  • August 11:British Indian government returns Gilgit, leased to it in 1934, to Maharaja.
  • August 14/15: Pakistan and India are established as sovereign states. British supremacy over princely states ends. Standstill Agreement between Kashmir and Pakistan takes place for continuance of existing arrangements of trade, communications and services which had been maintained with outgoing British Indian government (virtually all inherited by Pakistan).India refuses to sign the standstill agreement.
  • August 17: Red Cliff Award is published. (Cyril Red Cliff, a London barrister, headed Boundary Commission to establish partition lines between Pakistan and India in divided provinces of Punjab and Bengal.) By splitting Gurdaspur district - a Muslim-majority area allotted to Pakistan in 'notional division', the Award provided India with road link to Kashmir and made it practicable for Maharaja to accede to India or establish military alliance with it. Maharaja, having excluded option of joining Pakistan, adopts three-point strategy.
  • (i) to make road to India serviceable - all existing roads lead to Pakistan; (ii) to concentrate his troops in areas bordering Pakistan to deter insurgencies and seal frontier against incursions; (iii) to establish close working relationship with Indian government without formal accession, if possible and with it, if necessary.
  • August 26:Armed uprising against Maharaja's forces begins in Poonch. Fighting spreads quickly throughout the area inhabited by ex-servicemen of British Indian army.
  • September 29: Shaikh Abdullah is released by Maharaja's "act of royal clemency" while Chowdhary Ghulam Abbas continues to remain incarcerated.
  • Armed bands of extremist militant Hindu party in India, the Rashstrya Sevak Sang (RSS) enter Jammu and are deployed at various places, including Uri and Muzaffarabad in Kashmir. Killing of Muslims is accelerated in interior of Hindu-majority areas - Maharaja himself giving Go-head signal at place named Deva Vatala. His Prime Minster Mehr Chand Mahajan advises Hindus to change the demographic Character of Jammu by Killing Muslims in large numbers. Around five lac Muslims are killed, their property looted & women raped. British daily "the London Times" quoting its special correspondent in India states that the Maharaja, under his own supervision, got assassinated 2,37,000 Muslims, using military forces in Jammu area. The editor of "Statesman" Ian Stephen, in his book "Horned Moon" writes that till the end of autumn 1947 , more than 200,000 Muslims were murdered in one go. Even Horse Cart Drivers(Tongawallas) from Kashmir who had transported Hindus from Kashmir to Jammu at great personal risk were killed near Nagrota. Gandhi later acknowledges the injustices to Muslims and puts the blame on Mahraja & his Prime Minster.
  • October 12: Pakistan government sends telegram to Mahajan about "large number of villages (in Poonch) that can be seen burning from Murree Hills" (in Pakistan), pointing out that as "Pakistan army obtains large number of recruits from Poonch", situation is "fraught with danger" to "friendly relations" that Pakistan "wishes to retain with Kashmir". Message asks for restoring order and discipline of Maharaja's troops. Mahajan replies on October 15 complaining of "infiltration" from Pakistan and stating that his government is "prepared to have impartial inquiry made into the whole affair" to "remove misunderstandings" and restore cordial relations. Otherwise, he adds, his government will have "no option but to ask for assistance to withstand aggressive actions of what he described as "Pakistani people along our border".
  • October 16: Shaikh Abdullah holds meeting with Maharaja. Mahajan sends his message with telegram to Quaid-e-Azam on October 18 stating that if Pakistan's "extremely unfriendly acts" are not stopped, Maharaja's government "will be justified in asking for friendly assistance". Reply of Foreign Minister of Pakistan categorically denies Maharaja's allegations; pointing out exodus of Muslims" from border areas of the State, and adds "We are astonished to hear your threat to ask for assistance from an outside power" with the object of completing "the process of suppressing the Muslims to enable you to join India as coup d'état against the declared will of 85 per cent of population of your State." Message warns of "gravest consequences" if measures toward that end are not stopped. Finally, message states that Pakistan government appreciates suggestion of an impartial inquiry and asks Maharaja to "immediately to nominate your representative on the Enquiry Committee" whereupon "Pakistan government will nominate its representatives without delay so that the Committee can proceed at once with a thorough inquiry into the whole matter.".
  • A battalion of Patiala State forces - is brought into Kashmir on October 17; it takes up positions guarding Srinagar airfield and reinforces Maharaja's garrison in Jammu
  • October 20: Governor General of Pakistan Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah sends telegram to Maharaja deploring tone and language of Maharaja's telegram which is "almost in the nature of an ultimatum", pointing out that difficulties in supplies "have been felt actually by the Punjab government (in Pakistan) themselves" and refuting Mahajan's "ex-parte" allegations in detail. Message stresses urgent necessity of meeting of representatives of Pakistan and asks Maharaja to help end acrimonious and bitter controversy and smooth out difficulties by sending representative to Karachi and also to cooperate in setting up an Enquiry Committee immediately.
  • October 22: Muslim soldiers of Maharaja's army in Muzaffarabad sector - on the road to Srinagar - rise in mutiny and liquidate their commander and other officers. About 3,000 Pathan tribesmen, volunteers from areas not under Pakistan's regular administration with small arms and driving in civilian lorries, commanded by Khurshid Anwar, enter State on October 22 and overrun whole Muzaffarabad-Uri area. Although lacking armoured transport, they rapidly advance towards Srinagar (October 22-26), overcome resistance by Maharaja's force and, amidst jubilation of people along the way and with help from local civilians in building diversions in place of bridges destroyed by Maharaja's retreating troops, reach Baramulla on October 25. R.L. Batra, Maharaja's Deputy Prime Minister, is sent off to Delhi on October 23 with request for large-scale military assistance but without offer of accession unless insisted on by Indian government.
  • October 24: Establishment of Azad (free) Kashmir government declared with headquarters at Trarkhal inside Kashmir.
  • General Gracey, British acting Commander-in-Chief of Pakistan army, warns Pakistan Government on October 24 of "chaos in Kashmir" and urges that tribal leaders in Kashmir be "told categorically that policy of Pakistan government is strict neutrality". News of planned Indian military operation reaches Pakistan army headquarters on October 26 but information not passed on to Governor General Quaid-e-Azam until evening of October 27. Immediately on receipt of it, Quaid-e-Azam orders Gen Gracey to send regular Pakistan troops to Kashmir to rectify situation. Gracey responds that action requires approval of Field Marshal Auchinleck, Pak-India Joint Supreme Commander. Auchinleck flies next morning to Lahore and represents to Quaid-e-Azam that sending Pakistan army to Kashmir will necessitate withdrawal of all British officers from the army and spell virtually total disorganization. Auchinleck suggests that, instead, Quaid-e-Azam invite Mountbatten and Nehru to Lahore in order to achieve peaceful settlement. Auchinleck's suggestion is backed by Pakistan cabinet which recommends to Quaid-e-Azam to withdraw his order. On return to Delhi, Auchinleck impresses on Mountbatten that Quaid-e-Azam is enraged at what he regards India's "sharp practice" and that Mountbatten and Nehru should meet Quaid-e-Azam in Lahore immediately to come to an agreement. In view of prospect of peaceful adjustment by decision at summit conference, Quaid-e-Azam accepts cabinet's recommendation and withdraws his order for sending troops to Kashmir.
  • October 25: As Azad forces, including Pathan volunteers, advance towards Srinagar, Maharaja flees from his capital. Mahajan and Shaikh Abdullah fly to Delhi and confer separately with Nehru on October 25. Nehru assures Prime Minister Attlee of Britain on October 26 (copy of telegram sent to Pakistan Prime Minister two days later) that "question of aiding Kashmir in this emergency is not designed in any way to influence the State to accede to India" and "question of accession must be decided in accordance with the wishes of the people". Attlee cables next day "begging" Nehru not to let his answer to Maharaja's appeal for aid "take the form of armed intervention" and suggests tripartite meeting of Prime Ministers of India, Pakistan and Maharaja to settle problem.
  • October 26: Indian government decides to rush troops to Kashmir, requiring Maharaja to accede to India and install Shaikh Abdullah as head of administration. Maharaja's letter offering accession, drafted for him by Indian official, V.P. Menon, is preceded by Governor General Mountbatten's letter of acceptance, drafted by same hand; the two letters are given dates of October 26 and 27, respectively. Mountbatten's letter provides that "as soon as law and order have been restored in Kashmir and her soil cleared of what was called as the "invader", the question of the State's accession should be settled by a reference to the people". .
  • October 27: Indian troops are flown to Srinagar, early morning. First contingent encounters advancing detachment of Azad forces at a place 24 miles from Srinagar and is eliminated. Mountbatten personally supervises planning of Indian military operations.
  • October 28: Nehru invites Pakistan government's "cooperation" in stopping "the raiders" (i.e. Azad forces) and assures Liaquat Ali that "accession is subject to reference to the people of the State and their decision".
  • October 29: Pakistan's reply cites Maharaja's refusal to allow an impartial inquiry, killing of Muslims by his troops and conspiracy to create a situation for military intervention by India. The telegram, addressed both to Nehru and to Attlee, says that developments have revealed "existence of a plan for accession against will of the people possible only by occupation of the country (Jammu Kashmir) by Indian troops". Message concludes that "Pakistan government cannot recognise accession of Kashmir to Indian Union achieved as it has been by fraud and violence." Conflicting views appear at highest level of Indian government about proposed conference with Quaid-e-Azam. Mountbatten agreeable, Nehru most reluctant, Patel (and Menon) vehemently opposed. Conference is postponed until November 01. Nehru pleads illness and is relieved when Mountbatten lets him off. Finally, Mountbatten (accompanied only by Ismay, his personal adviser) flies to Lahore to meet Quaid-e-Azam.
  • October 31: Nehru communicates to Liaquat Ali that Kashmir's accession has been accepted on condition that as soon as law and order have been restored "the people of Kashmir would themselves decide the question of accession". He adds "Our assurance that we shall withdraw our troops from Kashmir as soon as peace and order are restored and leave the decision regarding the future of the State to the people of the State is not merely a pledge to your government but also to the people of Kashmir and to the world".
  • November 2: Nehru repeats the same undertaking in a radio broadcast. "We have declared that the fate of Kashmir is ultimately to be decided by the people. We will not, and cannot back out of it. We are prepared when peace and law and order have been established to have a referendum held under international auspices like the United Nations. We want it to be a fair and just reference to the people, and we shall accept their verdict." .
  • November 6: Horrified & terrorized surviving Muslims of Jammu transported in trucks on the ostensible reason of being taken to Pakistan. They are waylaid during travel and killed with Machine guns fitted atop small Hilllocks.

Tuesday 4 February 2014

SOLIDARITY DAY AND MOST FAVOURITE NATION

              In daily life we show sympathy to martyred family and martyr not at the same time. we  do not support  downtrodden and atrocious simultaneously. We do not favor oppresses and helpless at the same time. But in case kashmir where is government of Pakistan going.?
            First time Solidarity day on 5th February 1974 was observed  under the leadership of Zulifqar Ali Bhutto. In 1990 on the proposal of Qazi Hussain Ahmed (R.A) the then president of Jamiat-e-Isalmi, government of Pakistan lead by Muhtrama Banizer bhutto declared 5th February as solidarity  day permanently. After that ,every year 5th February  is celebrated as solidarity day for kashmiri people.
               On the day Pakistani nation should renew its  pledge  to continue unflinching support to kashmiri people who are carrying on just a struggle to achieve their inalienable right of self determination. This day should be  celebrated to convey clear message to INDIA and international world that kashmiri people are not alone in their struggle for the right of self determination.
                  But in recent years we are observing the policies of government  of Pakistan regarding Kashmir are going to be changed. Now and previous government has made secrete efforts to declare INDIAN nation as a MOST FAVORITE NATION (MFN). If government not people of pakistan increasing such type of relation with INDIA then how INDIA take this Solidarity day a serious solidarity with kashmiri nation and simultaneously how kashmiri people believe on such type of solidarity.The government of Pakistan should try to solve the core issue first then all matters are solved automatically, otherwise Maulana Fazal Rehman the chairman of Kashmir committee has said already it will be dangerous for both Pakistan and INDIA if they are  not resolving Kashmir issue as soon as possible the  kashmiri people will be disappointed from both PAKSITAN and INDIA  and  the result of disappointed will not come in favor of both countries.